Sunday, August 1, 2010

MOTHERS...

دور پرے آسماں وچ رب سچےدا ناں۔۔۔ ھیٹاں ایس جہان وچ بس اک ماں ای ماں۔۔۔۔۔۔ 


بہت سال پہلے طارق عزیز نے یہ شعر پڑھا تھا۔۔۔ یقینا انکی والدہ میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہو گی۔۔۔ شاید یہی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو پاکستان سے محبت کرنا سکھایا۔۔۔ شعور دیا تہذیب سکھائی۔۔۔
 

آجکل کی ماؤں اورخواتین کا حشر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ الله سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو امی کو کر لیتی۔۔۔ ماں تو ایک ایسی عورت کا نام ہے جو گھر کو اک نظام دیتی ہے۔۔۔اور گھر کے نظام ہی سے کسی قوم کے عظیم یا ذلیل ہونے کا پتہ چلتا ہے۔۔۔
 

ہم نےآنکھہ کھولتےہی اپنے گھر میں اصول دیکھے۔۔۔ اس وقت برا بھی لگتا تھا۔۔۔ پابندیاں اچھی نہیں لگتیں نا۔۔۔ وقت پہ کھانا۔۔۔ پاؤں اٹھا کر چلو۔۔۔ سپڑ سپڑ کی آواز نہ آئے پیروں سے۔۔۔ منہ بند کرکے کے کھاؤ۔۔۔ باتھہ روم سے ہاتھہ پیر دھو کر نکلنا۔۔۔ رات کو پاؤں دھو کر بسترمیں لیٹنا۔۔۔جلدی سونا۔۔۔ جلدی اٹھنا۔۔۔ اتوار یا چھٹی والے دن بھی کبھی دیر تک نہیں سوئے۔۔۔ ہاتھہ کے ہاتھہ برتن اور کپڑے دھلنا۔۔۔ روزانہ کے علاوہ ہفتہ وار صفائی۔۔۔ہر چیز کی اپنی ایک جگہ تھی چیزیں جہاں سے اٹھاؤ استعمال کے بعد واپس وہیں رکھو۔۔۔ امی کا کہنا تھا صبح اٹھتےہی گھر میں جھاڑو دو تو گھر پہ رونق  بھی آجاتی ہےاورگھر ٹھنڈا رہتا ہے۔۔۔  صاف گھر ہوتا ہے تو فرشتے آتے ہیں اورجہاں دل کرے کھڑے ہو کے نماز پڑھ لو۔۔۔ہمارا چھوٹا سا کچن بھی ڈرائنگ روم کی طرح چمکتا تھا۔۔۔ امی اور ممی تو کہتی تھیں کسی گھر کی لڑکیوں کا سلیقہ دیکھنا ہو تو انکا کچن اور باتھہ روم چیک کرو۔۔۔ کیونکہ ڈرائنگ روم تو سب ہی سجا کر رکھتے ہیں۔۔۔ کسی تقریب یا گھوم پھر کر آتے تھے تو نہانا لازمی ہوتا تھا۔۔۔ سب سے اچھا اور بہترین اصول جو امی اور چھوٹے ماما نے سکھایا تھا وہ یہ تھا کہ گھر جوتوں اورچپلوں کی جگہ نہیں ہوتا۔۔۔ باہر کے جوتوں کی جگہ دروازے کے پاس تھی۔۔۔ باتھہ روم کےچپل الگ تھے۔۔۔
اور شدید کوفت ہوتی ہے یہ دیکھہ کہ لوگ اپنے گھر میں بھی بے دھڑک جوتے لئے پھرتے ہیں۔ وہی چپل باتھہ روم میں اور وہی کچن میں۔۔۔ اور تو اور دوسروں کے گھروں میں بھی منہ اٹھائےبے نتھے بیل کی طرح گھس جاتے ہیں۔۔۔
او بھئی پڑھے لکھے لوگ ہو۔۔۔ ذرا نیچے بھی دیکھہ لوکسی کا فرش صاف پڑاہے۔ ضروری ہے کہ دوسروں گھر کو گندا کر کے ہی دم لو۔۔۔  مہمان بنو عذاب تونہ بنو۔۔۔
 ویسے امی کے پاس ہر مسئلے کا حل موجودہوتا تھا۔۔۔ امی بوریت ہو رہی ہے۔۔۔ جواب ملتاتھا فالتو بیٹھی ہو اسلئے۔ اٹھہ کے کوئی کام کرو بوریت ختم ہو جائیگی۔۔۔ پھر باجی کی مثال ملتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ امی آج کھانا اچھا نہیں پکا۔۔۔ جواب آتا تھاابھی تمھیں بھوک نہیں ہے۔ بھوک لگے تب کھانا۔ اچھا لگے گا۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی برائیاں کرو تو فورا ٹوک دیتی تھیں۔۔۔ تم کوئی اچھی مثال قائم کرکے دکھا دو اور یہ لیکچر ذرا لمبا ہو جاتاتھا۔۔۔ اور جب کچھہ کر دکھانے کی بات کی۔۔۔ آہاہاہا۔۔۔ صحیح کی پڑتی تھیں۔۔۔ یہ معاشرے کی بھلائی کاکام کریں گی ایک گھر تم لوگوں سے سنبھالا نہیں جاتا۔۔۔ کہو تو چیزیں جگہ پررکھی جاتی ہیں۔۔۔ اپنے ہی گھر کا کام کرکے تمھارے ہاتھہ پیروں میں درد شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ دوسروں کے کام کیا کروگے۔۔۔ پہلے گھر سے ثابت کرو کہ کسی قابل ہو۔۔۔۔۔
امی کے اندر بہترین انتظا می صلا حتیں کہاں سے آئیں اس پر آج تک ہمیں بلکہ سبکو حیرت ہوتی ہے۔۔۔ پچپن میں سوچتے تھے ایک ہماری امی ہی کیوں ایسی ہیں سبکی امیاں تو نارمل ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اب دعا کرتی ہوں کاش ساری مائیں امی جیسی ہو جائیں۔۔۔۔